تحریر : معیز سلیم ۔
لاہور ۔

دین اور سائنس کی بہت پرانی دشمنی چلی آرہی ہے ۔ آخر اس دشمنی کی وجہ کیا ہے ؟ کیوں ۱۵ صدی سے آغاز ہوئی اور آج بھی اسکے اثرات نظر آتے ۔ کیا سائنس واقعی ہی میں خدا کے نظریے کو نہیں مانتی ؟ 
ان سب باتوں کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایک طالب علم بنا پڑے گا جو صفر سے شروع کرے ،مان لیں کے آپ کی آنکھ کھلی اور آپ لا دینیت کا شکار ہیں اب آپ ان چیزوں کی جانچ پڑتال کریں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ آپ ایک غیر جانبدار نظریہ تک پہنچ جائیں ۔سائنس کو شروع سے کسی خدا کے ساتھ لگاؤ اور  ضرورت محسوس نہیں ہوئی وہ اس لیے کے سائنس اپنے خیالات میں کسی ایسی چیز کو شامل نہیں ہونے دیتا جسکا مشاہدہ اور تجربہ نہ کیا جا سکے ۔ ویسے تو کئی سائنسدان اس پر کام کر چکے ہیں لیکن یہ بحث Charles Darwin کی" Theory of Evolution" کے بعد وجود میں آئی جسکا ذکر انہوں نے اپنی کتاب "On the Origin of Species "میں کیا ہے۔ Theory کا مطلب سائنس میں یہ ہے کے  ایسا عمل یا نظریہ جو انسان نے اپنی ذہانت کا استمعال کرکے مشاہدات اور تجربات کو بار بار کرکے قائم کیا ہو ۔ اسکو اردو زبان میں "اِرتقاء کا نظریہ " کہا جاتا ہے ۔ اِرتقاء ایک ایسا عمل ہے جس میں نسلیں اپنے آپ میں genetical changes یعنی جینیاتی تبدیلیاں  لاتی ہیں ۔ یہ کوئی چھوٹا عمل نہیں ہے اس کو لاکھوں سال لگ جاتے ہیں ۔ یہ تبدیلیاں نسلیں اپنے ماحول میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کرتی ہیں نہیں تو نام و نشان مٹ جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر  کئی صدیاں پہلے چوہوں کہ رنگ  سفید تھا ، سفید رنگ کی وجہ سے یہ انکے شکاریوں کے لیے آسان تھا کے دور سے انہیں دیکھ لیں اور مار دیں لیکن جیسے ہی انکے specie کو اس کا خطرہ لگا کے انکی نسل ختم ہوجائےگی انہوں genetic changes کیے جس میں انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ سفید سے ماحول کے مطابق ایسا کر لیا کے شکاری کو ڈھونڈنے میں مشکل ہو اور اس طرح انکی نسل ناپید ہونے سے بچ گئی ۔ یہ gentical changes آتی ہیں ہمارے DNA میں جو کے ایک معلومات کہ مجموعہ ہے۔ جیسے ہم USB میں مختلف گلوکاروں کے گانے رکھتے ہیں بالکل اسی طرح اس میں ہماری تمام معلومات ہوتی ہیں کہ آپکا رنگ ، ذہانت ، قد وغیرہ ۔ یہ DNA آپکے والدین کے DNA کی کاپی ہوتا ہے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ۔ یہ تو ہوگیا تھیوری کا حصہ اب ہم تضادات کی طرف چلتے ہیں جو اس تھیوری کے بعد وجود میں آئے ۔ 

Image by Hatice EROL from Pixabay 

سائنسدانوں کا کہنا ہے کے انسان کا وجود ایک بندر کی specie سے ہوا ہے جو انسانوں کے خاندان سے ہے تعلق رکھتی ہیں۔ اسکو سائنس کی زبان ایسے کہیں گے Homogenous  ۔ انسان کی تخلیق یا اس دنیا میں آنے کا وقت ہے تقریباً 3.5 ارب سال قبل ۔ دنیا کو بنے یعنی Big Bang کو ہوئے 4.5 ارب سال ہوچکے ہیں ۔ Homo فیملی کی 6 species دریافت ہوئی ہیں یعنی ہماری طرح کے 5 اور Species بھی تھیں ۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے ایک اور specie کی انگلی ملی ایک غار سے یعنی ہمارا ایک اور كذن ملا ۔ یہ سمجھنے کے لیے ہم ایک گھوڑے ، زیبرا اور گدھے کی مثال لیتے ہیں یہ تینوں ایک ہی specie سے ہیں تبھی یہ ایک دوسرے سے "dishkum taitan " کرکے بچے پیدا کرسکتے ہیں ۔ یعنی انکے بڑے ایک جیسے تھی پورے نہیں لیکن کافی حد تک ۔ ایسے ہی انسان کے بھی كذنز تھے جو اب ناپید ہوچکے ہیں ۔ 
سوال اب اس سب بات میں سے یہ نکلتا ہے کے سب سے پہلے اگر اللہ تعالیٰ کا پروگرام سب سیٹ تھا تو 4.5 ارب سال پہلے دنیا بنی اور 3.5 ارب سال بعد انسان یا Homo کا وجود عمل میں آیا تو یہ درمیان کا 1 ارب سال کا وقفہ کیوں رہا ؟ جب پروگرام تیار تھا تو اتنی تاخیر کیوں؟ ھمیں بتایا گیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے تو یہ باقی كزنز کیوں تھے دنیا میں ؟ اگر آپکو تعجب ہورہاہے کے میں آپکو بندر سے ملا رہا ہوں تو آپ کے جسم میں دم کی ہڈی کیوں ہے ؟  ہم کس کی بات مانیں سائنس جو ہر چیز کو مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں تخلیق دیتی ہے یا دین جو کہے کے جو بتایا جا رہا ہے وہ کرو سوال مت پوچھو ۔ یا ہمیں اپنا سوفٹویئر اپڈیٹ کرنے کئی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟  جیسا کے علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب " Reconstruction of religious thoughts" میں ذکر کیا ہے ۔
15 صدی میں چرچ اور سائنس کے درمیان میں ایک جنگ کا آغاز ہوا وہ تھی کے کیا دنیا ساکن ہے یا سورج ۔ کون کس کے گرد چکر لگا رہا ہے ؟ چرچ یہ مانتی تھی جو بائبل میں انہوں نے پڑھا کے زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد چکر لگاتا ہے ۔جس جنگ میں  چرچ کے ہاتھوں ایک مشہور سائنسدان گلیلیو بھی قتل ہوا۔ لیکن یہ بات اب بھی ختم نہیں ہوئی اب کچھ لوگ یورپ اور دوسرے علاقوں میں زمین کو ساکن اور سیدھا مانتے ہیں جبکہ سائنس اسے کئی تھیوریوں سے مسترد کر چکا ہے ۔ صرف باہر نہیں ہمارے ہاں ایک کوکب نورانی صاحب ہیں جنہوں حضرت امام احمد رضا  ر ح کی کتاب کا حوالہ دے کر لوگوں کو ي بتایا کے زمین ساکن ہے جس کا بقول انکے قرآن میں بھی ذکر ہے ۔ 
پرانے دور میں ایسے سوال اٹھانے والوں کے ساتھ عام مجمعے میں گفتگو کی جاتی تھی اور ان سوالوں کہ جواب دیا جاتا تھا ۔ علم سے، دلیل سے اسکو تسلی دی جاتی تھی اور اب آپکو یہ سب شیطانی خیالات ہیں کہہ کر چُپ کروا دیا جاتا ہے ۔ اور شاید یہی ہمارے زوال کی وجہ ہے کے جب انگریز دنیا کو ایک بہتر جگہ رہنے کے لئے بنا رہے تھے (۱۲-۱۸ صدی) اس وقت مسلمان اس بحث میں تھے کے سوئی کے سوراخ سے فرشتہ نکل سکتا ہے کے نہیں.