تحریر: عائشہ رضوان  

لاہور

یونیورسٹی ایک ایسا شعبہ ہے جو بچوں کو معاشرے میں جینے کا شعور اجاگر کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ ادارے نا تو حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نا ہی بچے کو جینے کا شعور دیتے ہیں ہمارے اداروں میں بچے کو ایک مخصوص سوچ کے مطابق تیار کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ؟ سچ کی آواز کو خاموش کروا دیا جاتا ہے مگر کیوں؟ اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا کے ایک ادارہ جو بچے کی grooming کرتا ہے وہ بچے کی آواز کو کیوں  خاموش کروا دیتا ہے؟ آج کل کے ادارے بس پیسہ کمانے کی مشین بن گئے ہیں.ہمیں بس 4 (cgpa) کی قطار میں کھڑا کر دیا ہے  بچے کا استاد سے پہلے ایک روحانی تعلق ہوا کرتا تھا مگر اب صرف numbers کا تعلق رہ گیا ہے

Image by ElasticComputeFarm from Pixabay 

 افسوس ادارے کو چاہیے کے بچوں کی آواز ادارے سے باہر نکلنے کی حوصلہ افزائی کی جائے نا کے ان کو ایک مخصوص سوچ کے اندر دبا دیا جائے اداروں کو چاہیے کالج یونیورسٹیوں میں بچوں کو معاشرے میں جینے کا شعور بھی دیا جائے زندگی میں صرف چار cgpa  لانے کے علاوہ بھی بچوں کو معاشرے میں اپنا نام  بنانے کا مقصد اور لوگوں کے کام آنے کا ذریعہ بنے کی تعلیم دی جائے . ادارہ بچے کی نشو نما میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور بچہ انہی اداروں سے اپنی زندگی میں اتار چڑھاؤ کے سلیقے سیکھتا ہے. یہی ادارے ہوتے ہیں جو بچے کی زندگی میں اس کو آسانیاں اور مشکلات سے دنیا میں لڑنے کا ہنر سکھاتے ہیں مگر افسوس ہمارے اداروں میں یہ سب کی بجائے نمبر اور خود غرضی کو پرموٹ کیا جاتا ہے تعلیم دی جاتی ہے مگر زندگی جینے کا ہنر نہیں سکھایا جاتا . بچوں کی سوچ کو کتابوں کے  کچھ  صفحوں میں  قید  کر دیا جاتا ہے .