زوحا راشد.

لاہور.

لیڈر شپ کی تعریف کے مطابق لیڈر شپ ذہانت ، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فرد واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنڑول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ لیڈرشپ کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ کوئی لیڈر اپنے کام میں کتنا بھی ماہر کیوں نہ نظر آۓ، اس کی راہ ہمیشہ چیلنجز اور حیرتوں سے پھر ہوتی ہے ۔ تاہم ، لیڈر چیلنج کا مقابلے کبھی بھی تنہا نہیں کرتا۔ قیادت کی تعریف ہی یہی ہے کہ قائد کے ساتھ ایک گروہ یا تنظیم ضرور ہوتی ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہر ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہوتی ہے۔ لیڈر کا ‏کام بھی ہر مسئلے کو تن تنہا حل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی اقتداء کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے تحریک فراہم کر نا ہو تا ہے۔حقیقی لیڈر وہ ہوتے ہیں جن میں کسی معاشرے کے انفرادی ارکان کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کا پتہ چلانے کے لئے ضروری مگر کامیاب ذہانت اور دوراندیشی کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں.
 تب وہ انفرادی مفادات کو از سر نو ترتیب دے کر انہیں اجتماعی مفادات کے حصول کی جد و جہد میں شامل کرنے اور میڈیا کے ذریعے انہیں معاشرے کے مختلف طبقات کے سامنے ایسے انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں جس سے ان کے جذبات کو تحریک ملے اور وہ اس کی حمایت کر نے پر آمادہ ہو جائیں۔کسی مضبوط لیڈر کا تصور کرتے ہی ہمارے پر دئہ تخیل پر ایک ایسے فرد کی تصویر ابھرتی ہے جو لوگوں کو مختلف گروہوں میں منقسم نہیں کرتا یا جو زور خطابت یا دوسرے جذباتی حربوں سے لوگوں کو اپنے مقام کا قائل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔

Image by Daniel Mena from Pixabay 

نظریاتی تعریف کے مطابق ، قیادت ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کی وہ اہلیت ہے جو انہیں عوام کو متاثر کرنے اور ان کے تجویز کردہ راستے کو درست سمجھنے پر آمادہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے ، ماسواۓ اس صورت کے کہ جب ایک لیڈر اپنی حیثیت و مرتبے کے غرور میں اتنامست ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو اپنی جماعت یا انتخاب کنند گان کے سامنے جوابدہ قرار دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ خواتین کی لیڈر شپ میں ہمیں یہی اوصاف نظر آتے ہیں۔ جب خواتین کو کسی ایسے ماحول میں کام کرنا پڑے جو ان اوصاف کے لئے ساز گار نہ ہو تو انہیں خود کو ثابت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ بھی قیادت آزمانے پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور پھر اس میں بھی اتنی مہارت حاصل کر لیتی ہیں کہ سسٹم انہیں قبول کرنےپر مجبور ہو جاتا ہے۔