تحریر: عروج سرفراز.
لاہور.

آج کے اس دور میں ہر دوسرا نوجوان ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن کا شکار ہے اور اُن کا ڈپریشن بھی عجیب ہے یعنی اندھیرے میں بیٹھ جانا، ایک بات کو گھنٹوں سوچنا، ڈپریشن کی بے شمار گولیاں کھانا،کسی سے بات نہ کرنا وغیرہ۔
در حقیقت ڈپریشن ایک کیفیت کا نام ہے ایسی کیفیت جب ہم خود کو ایک تنگ راستے میں کھڑا پاتے ہیں جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہو وہاں روشنی کی کوئی کرن نظرنہیں آتی ۔ہم خود کو ماضی کی بری یاد کی دلدل میں خودکو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں اور اپنے مستقبل میں بھی اُسی بری یاد کو دیکھتے ہیں ہمیں لگتا ہے کہ ہمارےمستقبل میں بھی وہی مصیبت کا سامنا کرنا ہے۔ ڈ پریشن منفی خیالات سوچنے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ڈپریشن ہی ہے جو منفی خیالات کا سبب بنتا ہے۔
ہم افسردہ ہوتے ہیں ہم سوچتے ہیں شاید ہم کسی کام کے لیے بہتر نہیں ہم بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔یعنی مایوسی کا سیاہ بادل ہمیں پوری طرح ڈھانپ دیتا ہے۔کبھی کبھی ڈپریشن میں انسان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ نہ تو اسے کسی کا ساتھ اچھا لگتا ہے نہ کسی کی آواز اچھی لگتی ہے وہ خاموشی چاھتا ہے اتنی خاموشی کہ اُسے سانس لینے کی آواز بھی بری لگتی ہے اُسے جینا مشکل لگتا ہے اور پھر وہ دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لیتا ہے۔ کیا حرام موت مرنا اتنا آسان ہے ؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس پاک ذات نے ہمیں یہ زندگی دی ہے اُس نے ہمارے لیے بہت بہتر سوچ رکھا ہے۔ 
Image by Gerd Altmann from Pixabay 

سائنسی دور نے جہاں انسان کو نئی نئی سہولیات دی ہے۔ وہاں کچھ مسائل بھی پیدا کئے ہیں۔ اور روز بروز ان مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیا اب سے پچاس سال قبل خود کشی اتنی عام تھی جتنی اب ہے؟ کیا ٹینشن ڈپریشن کا عروج جتنا اب ہے پہلے بھی ایسا تھا؟ تو اس کا جواب نفی میں ملے گا ۔ ایک ماہر نفسیات نے کیا خوب کہا ہے کہ بیماری کچھ نہیں بلکہ سبقت لے جانے کی دوڑ نے یہ تمام مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں اپنی زندگی کو اعتدال پرلائیں تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ اللہ پر چیز پر قادر ہے تکالیف،آزمائشیں ہر انسان پر آتی ہے۔ لیکن ہم خود کو کوستے ہیں دوسروں کو الزام دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ اللہ کے حکم کا پابند ہے۔
ڈپریشن سے نمٹنے کی طرف پہلا قدم یہ ماننا ہے کہ اللہ کی ہی ذات ہے جو ہمارے تمام مسائل کو حل کر سکتی ہے ہمیں اللہ سے مدد مانگنی چاہیے دعا کرنی چاہیے کہ جو تکلیف ہم محسوس کر رہے ہیں جو گناہ ہمیں اس حال میں لائے ہیں اُنہیں الله پاک معاف کر دیں۔ میری رہنمائی کریں ۔ بے شک اللہ کسی جاندار پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
 *سورۃ البقرۃ (آیت۲۸۶* )
**"خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہمیں نہ پکڑ۔ اے پروردگار! ہم پر ایسا بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار! جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما۔"**
مایوسی کفر ہے۔ بس یاد رکھیے کہ ﷲ ہیں نا ہمارے ساتھ، وہ وقت آنے پر سب ٹھیک کر دے گا انشاءاللہ۔۔۔!