Urdu Novel

ناول نگار : شکیل احمد تحسین
لاہور -

قسط نمبر  1

ایک خواب ہے میرا

ایک ایسا وقت ہو

ایک ایسا دن ہو

ایک ایسی جگہ ہو

کہ جہاں

میرے پروں کو کاٹا نہ جائے

مجھے کھلی فضاؤں میں اڑنے دیا جائے

مجھے پابندیوں کی زنجیروں میں نہ جکڑا گیا ہو

گلی میں چلتے ہوئے گھورا نہ جائے

مجھے عجیب نظروں سے نہ دیکھا جائے

میرے ہاتھوں سے کتابیں نہ چھینی  جائیں

جہاں مجھے وہ سب کرنے دیا جائے جو میں چاہوں

میں جانتی ہوں

یہ مشکل ہے

یہ خواب ہے

لیکن میں اس کو آسان بناؤں گی

اس کی تعبیر ممکن بناؤں گی

لوگ مجھے کہتے ہیں

میں پاگل ہوں

وہ سچ کہتے ہیں

میں پاگل ہی ہوں

کیوں کہ میں باغی ہوں

کیوں کہ میں نہیں مانتی

ان کی ریت و رواج

ان کے فرسودہ اصول

ان کے جاہلانہ قوانین و پابندیاں

اگر یہی میرا جرم ہے

یہی میرا قصور ہے

تو مجھے فخر ہے اس پر

اور یہ جرم

میں اک بار نہیں

بار بار کروں گی

'اس کو تو میں ہی پٹاؤں گا'۔ ان میں سے ایک نے کہا۔
'ارے وہ ساتھ والی کو دیکھو ناں!'ایک دوسرے مسٹندے کی آواز آئی۔
اوہ ہاِں یار اس طرف تو میری نظر ہی نہیں گئی۔ یہ حسینہ آج بچ کر کہاں جائے گی۔ اوکے نعیم تم نے یہ کرنا ہے کہ وہ جیسے ہی میرے قریب سے گزرنے لگے تم نے مجھے ذرا سا دھکا دینا ہے، اگلا کام میرا۔ ڈن بوس! نعیم نے ہمیشہ کی طرح تائیدی انداز میں سر ہلا دیا۔
یہ گاؤں کے دو چار آوارہ منچلوں کا گروپ تھا جن کا کام سارا دن ہر آتی جاتی لڑکی کو تنگ کرنا تھا۔پڑھائی وغیرہ سے یہ لوگ چالو تھے اور بچپن میں ہی اسکول سے  سند فراغت حاصل کر چکے تھے۔ دن کے اوقات میں وہ محلے کی لڑکیوں کو تنگ کرتے تھے ۔ بازار میں کھڑے ہو کر ہر آتی جاتی لڑکی پر ہونٹگ کرتے اور سیٹیاں مارتے ۔ان کے اس رویے کی وجہ سے محلے والوں نے اپنی لڑکیوں کو گھروں سے نکالنا چھوڑ دیا تھا ۔ والدین چونکہ اثر وردسوخ کے حامل تھے اس لیے ان کو کسی قسم کا کوئی ڈر بھی نہ تھا۔  چار لوگوں کا یہ گروپ تھا اور علی ان کا غیر اعلانیہ سربراہ تھا ۔چونکہ اس کا باپ گاؤں کا نمبردار تھا اس لیے اس گینگ کی سربراہی کے لیے سب کا اس کے نام پر اتفاق تھا ۔سب اس کی بات مانتے۔ اس وقت وہ اور نعیم گورنمنٹ گرلز اسکول کے سامنے موجود تھے ۔شاہد اور ندیم اس وقت گھر تھے یا کہیں اور منڈلا رہے تھے ۔ اسکول سے چھٹی ہو چکی تھی اور ان کے مشن کا بھی آغاز بھی ہو چکا تھا۔ ان کی نظر سامنے سے آنے والی خدیجہ سلطان اور اسکی سہیلی آمنہ پر تھی ۔ دونوں سامنے سے آ رہی تھیں۔
اسکول یونیفارم میں ملبوس ، سر پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے اور جھکی نظروں کے ساتھ چلتی خدیجہ سلطان  ایک عام مشرقی لڑکی تھی لیکن کچھ تھا اس کی بڑی بڑی کالی انکھوں میں جو اس کو عام اور روایتی مشرقی لڑکیوں سے ممتاز کرتا تھا ۔دوسری لڑکیوں کی طرح وہ کوئی شرمیلی یا اعتمادکی کمی کا شکار نہ تھی   بلکہ بلا کا اعتماد تھا اس میں ایک چمک تھی اس کی انکھوں میں  ۔ پندرہ سالہ خدیجہ سلطان گورنمنٹ گرلز اسکول میں میٹرک کی اسٹودنٹ تھی ۔اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیتوں کی وجہ سے وہ سارے اسکول میں ممتاز تھی اور ٹیچرز کی آنکھوں کا تارہ تھی۔ وہ اپنے خوبرو چہرے،دودھیا رنگت اور منفرد اسٹائل کی وجہ سے مجمعے میں بھی ممتاز نظر آتی تھی۔ 
  
Urdu Novel
Image by Jill Wellington from Pixabay                                                                     

"اوکے! آمنہ وہ نوٹس آج ہی میں تیار کر لوں گی اور کل تک تمہیں دے دوں گی"۔ اس نے ساتھ چلتی آمنہ کو یقین دلایا اور اس کو یقین آ بھی چکا تھا ۔ خدیجہ سلطان کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی تھی۔یہ اس کو پتا تھا۔
"تھینک یو ڈارلنگ!  "آمنہ نے اس کو ہمیشہ کی طرح  بے تکلفانہ انداز میں چھیڑا۔ وہ خدیجہ کی بیسٹ فرینڈ تھی ۔ اس کے سیل فون میں ایک ہی نمبر ولدیت، ادارے اور علاقے جیسی تفصیلات کے بغیر سیو تھا اور وہ نمبر آمنہ کا تھا جس کے لیےاس نے صرف تین لیٹرز رکھے تھے ۔
بی ایف ایف" BFF "
اور یہی اس کی دوستی کا ثبوت تھا۔ وہ اتنی جلدی لوگوں سے بے تکلف نہ ہوتی تھی ،مدد لیکن وہ ہر ایک کی کرتی تھی۔ اس کو وہ ایک الگ کیٹیگری میں شمار کرتی تھی۔ ہینڈ بیگ کندھے پر لٹکائے ، کتابیں ہاتھ میں پکڑے وہ اپنی رو میں چل رہی تھی کہ اچانک کوئی زور سے اس سے ٹکرایا۔ پہلے پہل اس کو لگا کہ شاید غلطی سے کوئی ٹکرایا ہے۔ لیکن کچھ ہی لمحوں بعد جب اس نے اپنےپیچھے  کچھ منچلوں کی ہنسی سنی تو اس کی چھٹی حس بیدار ہوئی اور جب اس نے کنفرم کرنے کے لیے اپنے عقب میں مڑ کر دیکھا تو اس کو یقین آ گیا۔  یہ وہی گینگ تھا جن کے قصے وہ اس سے قبل بھی سن چکی تھی۔ ان کی وجہ سے اس کی کئی ایک سہیلیوں نے اسکول آنا چھوڑ دیا تھا۔ فوراَاس کی پیشانی کے تیور بدل گئے اور چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر علی اور نعیم کمینگی ہنسی ہنسنے لگے۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو فورا سر جھکا کر گھر بھاگ جاتی لیکن وہ خدیجہ سلطان تھی جس نے ڈرنا سیکھا ہی نہ تھا۔ 
"ارے دیکھ نعیم! غصے میں تو اور بھی حسین لگتی ہے اپنی چھمک چھلو"۔ علی نے نعیم کو کہنی مار کر کہا۔ ہاں یارررررررر! اور اس سے پہلے کہ نعیم کچھ اور کہہ پاتا، اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیااور چھاتا بھی کیوں ناں اس کے تو باپ نے بھی ایسا نہ سوچا تھاکہ یہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ----