تحریر: فرقان انور
لاہور

امام ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک جو خبر پہنچی ہے اس کے مطابق حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت عمرایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے اور حضرت عمر کو یہ بتایا گیا تھا کہ وہ سب صفا پہاڑ کے پاس ایک گھر میں ہیں اور اس وقت مسلمان مردوں اور عورتوں کی تعداد چالیس کے قریب تھی۔
اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے عم محترم سیدنا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت ابوبکر صدیق بن ابوقحافہ، حضرت علی بن ابی طالب (رض) اور دیگر مسلمان تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں ہی مقیم تھے اور حبشہ نہیں گئے تھے۔ جب حضرت عمر سے نعیم بن عبداللہ (رض) ملے تو ان سے پوچھا : اے عمر تم کہاں جا رہے ہو ؟ حضرت عمر نے کہا میں نے (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ کیا ہے جو دین بدلنے والے ہیں جنہوں نے قریش میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان کے نوجوان اور عم عقل لڑکوں کو بہکایا ہے ان کے دین کی مذمت کی ہے اور ان کے خداؤں کو برا کہا ہے، سو میں ان کو قتل کروں گا۔ حضرت نعیم (رض) نہ نے کہا، اے عمر تم دھوکے میں مبتلا ہو، کیا تم سمجھتے ہو کہ بنو عبد مناف تم کو زمین پر چلنے کے لیے چھوڑ دیں گے اور تم (سیدنا) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرچکے ہو گے ! تم اپنے گھر کی خبر کیوں نہیں لیتے ! حضرت عمر نے الخطاب خدا کی قسم وہ دونوں مسلمان ہوچکے ہیں اور وہ دونوں (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی پیروی کرتے ہیں تم پہلے ان سے نمٹو، حضرت عمر اپنی بہن اور بہنوئی کا قصد کر کے چلے ۔
Image by mohamed Hassan from Pixabay                      
 وقت ان کے پاس حضرت خباب بن ارت (رض) کی آہٹ سنی تو انہوں نے حضرت خباب کو گھر میں کہیں چھپا دیا اور حضرت فاطمہ بنت الخطاب نے وہ صحیفہ بھی چھپا دیا۔ حضرت عمر نے حضرت خباب کے قرآن پڑھنے کی آواز سن لی تھی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو پچھا یہ کیسی آواز تھی ؟ ان دونوں نے کہا ہم نے تو کوئی آواز نہیں سنی، حضرت عمر نے کہا کیوں نہیں ! خدا کی قسم ! مجھے اطلاع ملی چکی ہے کہ تم دونوں (سیدنا) محمد ﷺ کے دین کی پیروی کر رہے ہو، پھر انہوں نے اپنے بہنؤی حضرت سعید بن زید کے ایک تھپڑ مارا، ان کی بہن اپنے شوہر کو بچانے کے لیے کھڑی ہوئی تو اس کو بھی مارا اور ان کا سر پھاڑ دیا جب انہوں نے بہت مارا تو ان کی بہن اور بہنؤی نے کہا ہاں ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں، اب جو تمہارے جی میں آئے کرو، جب حضرت عمر نے اپنی بہن کا خون بہتے ہوئے دیکھا تو ان کو اپنے مارنے پر ندامت ہوئی اور وہ مارنے سے رک گئے اور اپنی بہن سے کہا اچھا مجھے اپنا وہ صحیفہ دکھاؤ جس کو تم ابھی پڑھ رہے تھے۔ میں بھی دیکھوں (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا پیغام لے کر آئے ہیں اور حضرت عمر پڑھے لکھے انسان تھے۔
جب حضرت عمر نے یہ کہا تو ان کی بہن نے کہا ہمیں خطرہ ہے کہ تم اس صحیفہ کی توہین نہ کرو، حضرت نے کہا تم مجھ سے مت ڈرو اور اپنے بتوں کی قسم کھا کر کہا وہ اس صحیفہ کو اپس کردیں گے۔ جب حضرت عمر نے یہ کہا تو ان کی بہن کو امید ہوئی کہ شاید وہ اسلام لے آئیں۔ انہوں نے کہا اے بھائی تم ناپاک ہو اور مشرک ہو اور قرآن مجید کو پاک شخص کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، حضرت عمر نے غسل کیا اور ان کی بہن نے ان کو صحیفہ دے دیا جس میں لکھا ہوا تھا طہ جب انہوں نے اس کی ابتدائی آیات پڑھیں تو انہوں نے کہا یہ کس قدر حسین اور عظیم کلام ہے۔جب حضرت خباب نے حضرت عمر کا یہ قول سنا تو وہ اپنی چھپی ہوئی جگہ سے باہر آگئےاس وقت حضرت عمر نے کہا اے خباب ! (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میری رہنمائی کرو تاکہ میں اسلام لاؤں، حضرت خباب نے کہا وہ پہاڑ صفا کے پاس ایک گھر میں ہیں اور ان کے ساتھ ان کے اصحاب بھی ہیں، حضرت عمر نے اپنی تلوار لٹکائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی طرف چل پڑے اور جا کر ان کا دروازہ کھٹکھٹایا، جب انہوں نے دستک کی آواز سنی تو اصحاب میں سے کسی نے اٹھ کر دروازہ کی جھری میں سے جھانک کر دیکھا اور گھبرا کر کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ تو عمر ہے وہ تلوار لٹکائے ہوئے آیا ہے۔
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے کہا اس کو آنے دو اگر وہ کسی نیکی کے ارادہ سے آیا تو ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے اور اگر وہ کسی برائی کے ارادہ سے آیا ہے تو ہم اس کو اسی کی تلوار سے قتل کردیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،: اس کو آنے کی اجازت دو ، پھر اس نے اجازت دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند سنبھلاتے ہوئے کھڑے ہوئے پھر حضرت عمر کو اپنی طرف زور سے کھینچا اور فرمایا اے عمرچ تم کس لیے آئے ہو ؟ پس اللہ کی قسم ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے حتیٰ کہ اللہ تم پر کوئی سخت عذاب بھیج دے۔ حضرت عمر نے کہا میں آپ کے پاس الئے آیا ہوں تاکہ میں اللہ پر اس کے رسول پر اور اللہ کے پاس سے لائی ہوئی چیزوں پر ایمان لاؤں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے بہ آواز بلند فرمایا اللہ اکبر، حتیٰ کہ گھر میں موجود تمام اصحاب نے جان لیا کہ عمر اسلام لے آئے۔